کنز الدقائق

کنز الدقائق از امام عمر بن احمد نسفیؒ، دینی مدارس کی مقبول ترین کتاب اور درس نظامی کے نصاب کی حصہ کتاب ہے۔

منفرد متن

فقہ اسلامی کے ذخیرے کا سب سے منفرد متن "کنز الدقائق"کہلاتا ہے۔ فقہ حنفی کی اہم اور معتبر کتا ب ہے بہت زیادہ اختصار سے لکھی گئی مصنف نے اختلاف مذاہب کو بیان کرنے کے لیے مختلف حروف کو رمز بنایااہل علم نے اس کتاب سے بہت استفادہ کیا ساتویں صدی ہجری کے اواخر میں تصنیف فرمایا تھا۔

شروحات

اس کی بہت سی شروحات لکھی گئیں ابن نجیم کی البحر الرائق اورزیلعی کی تبیین الحقائق اس کی بہت اعلیٰ درجے کی شرح ہیں۔[1]

مصنف

کنز الدقائق کے مصنف کا پورا نام مفسر قرآن علامہ امام ابو البرکات حافظ الدین عبد اللہ بن احمدنسفی ،متوفی 710ھ ہے[2] علامہ نسفی نے ایک تفسیر بھی "مدارک التنزیل "کے نام سے لکھی تھی،جو آج بھی علمی حلقوں میں لائق مطالعہ وقابل استفادہ سمجھی جاتی ہے۔

اختصار کی مثال

ایک تفصیلی مسئلہ کو نہایت مختصر الفاظ میں بیان کرنا آپ کا خاص وصف تھا۔ کنزالدقائق کے نام سے علامہ نسفی نے۔ جو متن تیار کیا ہے وہ تمام متون سے زیادہ مختصراور جامع کہ اپنی مثال آپ ہے۔ بعض مقامات پر تو یہ اختصار ایک پہیلی کی صورت اختیار کرجاتاہے جو اپنے اندر نہ صرف علم کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ وہ ایک طویل بحث کو سمیٹ کر مختصر ترین عبارت میں بیان کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم ایک مثال ذکر کرتے ہیں جس سے آپ علامہ نسفی کی زبردست قوت فکر،شاندار اندازتحریر اوربہترین طرز تفہیم کا بخوبی اندازہ لگا سکیں گے۔ ایک جگہ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص جس پر غسل واجب تھا وہ کنویں میں گرگیا۔ دوچار غوطے کھانے کے بعد اس کوباہر نکالا گیا۔ اس کا پورا جسم بھیگ چکاتھا۔۔ اب سوال یہ ہے کہ کنویں کا اور اس آدمی کا کیا حکم ہے؟امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص بدستور حالت جنابت میں ہے محض کنویں میں گر کر بھیگ جانے سے اس کا غسل نہیں ہوا۔ اور اس کے گرجانے کی وجہ سے پانی بھی ناپاک ہو گیا۔ امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ اس آدمی کا غسل تو نہیں ہوا لیکن پانی پاک ہی سمجھا جائے گا۔ اور امام محمد فرماتے ہیں کہ اس شخص کا غسل ہو گیا اور پانی بھی بدستور پاک رہے گا۔ اگر آپ اس مسئلہ کو لکھیں گے تو دوچار صفحات بھر ہی جائیں گے۔ مگر امام نسفی نے اس ساری بحث کو ایک جملہ میں یوں لکھا ہے کہ"ومسئلۃ البئر جحط"(کہ کنویں کا مسئلہ ج،ح،ط ہے) چونکہ فقہائے احناف میں پہلا درجہ امام اعظم ابوحنیفہ کا ہے اس لیے سب سے پہلے ان کی رائے بیان کی ہے اور "ج"سے مراد نجس ہے ،یعنی دونوں نجس ہیں،کہ پانی بھی نجس ہو گیا اور وہ آدمی بھی بدستور نجس ہی رہا،امام صاحب کے بعد دوسرا درجہ امام ابویوسف کا اس لیے آگے ان کا مسلک بیان کیا ہے اور "ح"سے مراد ہے "علیٰ حالہ" یعنی دونوں اپنی اپنی حالت پر ہیں کہ کنواں جیسے پہلے تھا ویسے ہی پاک رہے گا اور وہ آدمی جیسے پہلے ناپاک تھا اب بھی ناپاک سمجھا جائےگا۔ تیسرا موقف امام محمد کا بیان کیا ہے جن کا درجہ ان دونوں حضرات کے بعد آتاہے۔ اور "ط"سے مراد "طاہر" ہے،یعنی کنواں بھی پاک ہے اور وہ آدمی بھی پاک ہوجائےگا۔

حوالہ جات

  1. قاموس الفقہ ،جلد اول صفحہ 382،خالدسیف اللہ رحمانی،زمزم پبلشر کراچی
  2. هدیۃ العارفين اسماء المؤلفين وآثار المصنفين مؤلف: إسماعيل بن محمد أمين بن مير سليم البابانی البغدادی ،ناشر: طبع بعنایۃ وكالۃ المعارف الجليلہ فی مطبعتها البہیہ استانبول 1951
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.