پروین بابی
بالی وڈ کی معروف اداکارہ۔ جونا گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ پروین احمد آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں کہ فلم چریتا میں کام کیا لیکن یہ فلم ناکام رہی۔ اسی طرح ان کی دوسری فلم دھویں کی لکیر بھی ناکام رہی۔ لیکن امیتابھ بچن کی ساتھ ان کی اگلی فلم ’مجبور‘ نے انہیں بالی وڈ میں ہیروین کے طور پر بے پناہ شہرت بخش دی۔ 75ء میں دیوار کیا ریلیز ہوئی انڈین فلم انڈسٹری کو ایک ایسی ہیروین مل گئی جو نہ صرف دیکھنے میں خوبصورت تھی بلکہ کھلے بالوں اور کم لباسی کے ساتھ ساتھ وہ کردار ادا کرنے کو تیار تھی جو سن ستر کی دوسری ہیروینوں کے لیے بہت ’بولڈ` تھے۔ دیوار کے بعد’ امر اکبر انتھونی ان کی ایک اور سپر ہٹ فلم رہی۔ انڈین فلم انڈسٹری پر پروین بابی کے اثرات کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ امریکی جریدے ’ٹائم` نے اپنے سرورق پر ان کی تصویر شائع کی۔ فلموں سے ریٹائرمنٹ کے بعد تنہائی کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن گئیں۔ اور اپنے فلیٹ میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ جس فلیٹ میں رہتی تھی اس کی سوسائیٹی کے مینیجر نے جب دیکھا کہ تین دن کے پیپراور دودھ کے پیکٹ اس کے دروازے پر جمع ہیں تو اس نے پولیس کوفون کیا۔ فلیٹ کا دروازہ توڑ کر سڑی ہوئی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجا گیا۔[1]
پروین بابی | |
---|---|
(انگریزی میں: Parveen Babi) | |
![]() پروین بابی پروین بابی | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 4 اپریل 1949 ء جوناگڑھ |
وفات | 20 جنوری 2005 55 سال) ممبئی | (عمر
وجۂ وفات | ذیابیطس |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | ماڈل، اداکارہ |
پیشہ ورانہ زبان | ہندی |
IMDB پر صفحات | |
انتقال : جنوری 2005ء
وفا اور بیوفائی کی اس داستان میں پروین بابی وہ ہیروئن تسلیم کی جاتی تھی جسے دنیا کاتمام عیش و آرام و دولت میسر تھاجبکہ موت انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہوئی۔ امر اکبر انتھونی،نمک حلال،کالیا،دیوار،سہاگ،دی برننگ ٹرین،خودار،رضیہ سلطانہ جیسی سپر ہٹ فلموں کی ہیروئن جس کی تصویر دنیا کی مشہور رسالہ ٹائم میگزین نے اپنے سرورق پر شائع کی تھی ‘سن 70 و80 کے دہائی کی یہ گلیمر گرل،سیکس سنبل اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن شمار کی جاتی تھی جو اپنے فلیٹ سے اس حالت میں مردہ پائی گئی کہ شوگر میں مبتلا ہو گئی۔ جسم میں پیدا ہونے والے زخموں گینگرین Gangrene کی وجہ سے اس کے پورے جسم میں کیڑے پڑ چکے تھے۔ اس کی لاش کے قریب وہیل چئیر سے پتہ چلتا تھا کہ اپنی عمرکے آخری ایام میں وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور تھی۔ پیٹ پھولاہوا ہونے کے علاوہ جسم سے اٹھنے والے شدیدتعفن کی وجہ سے موقع پر موجود لوگوں کا کمرے میں کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا۔ تفتیش کہ بعد پتہ چلا کہ90 کی دہائی میں بڑھتی عمر،ناکام معاشقوں اورپست مالی حالت کے سبب پروین بابی گمنامی کی دنیا میں چلی گئی،کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں گئی اور اس کیساتھ کیا بیتی،فلیٹ سے لاش ملنے کے بعد بھید کھلا کہ معروف اداکارہ یہاں تن تنہا اور اکیلی رہتی تھی جبکہ ذیابیطس نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔گجرات کے جونا گڑھ کے مسلم کنبہ میں4 اپریل 1949ء کو تولد ہونے والی انگریزی پوسٹ گریجوٹ خاتون کا عبرتناک انجام ہوا۔ فلیٹ سے اٹھنے والی سڑاند اور بدبو‘ دروازے کے باہر مجتمع اخباروں اور دودھ کے پیکٹوں نے‘ جو روزانہ اس کے گھر آتے تھے‘ پڑوسیوں کو متوجہ کر دیا۔3 دن تک لگنے والے اسی ڈھیر کی وجہ سے انھوں نے پولیس کو اطلاع دی جس کے بعد پروین بابی کے موت کا راز22 جنوری 2005ء کو فاش ہوا۔ اپنی اداوں سے کروڑوں لوگوں کے دلوں کی ملکہ بننے والی اس طرح مردہ پائی گئی کہ لاوارث جانوربھی شرما جائے۔ کوپر اسپتال Cooper Hospital میں پوسٹ مارٹم کے بعد پتہ چلا کہ وہ 3 دن سے فاقہ کی شکار تھی اور اس کے پیٹ میں دوا کے جز الکحل کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ دوسرے دن 23 جنوری کو تدفین کے بعد عدالت نے جونا گڑھ کے بینک میں موجود اس کے اثاثوں کو3جگہ منقسم کر دیا۔
یہ الگ بات ہے کہ جگہ کی قلت کے سبب نہ صرف پروین بابی بلکہ محمد رفیع‘ نوشاد‘ مدھو بالا‘ ساحر لدھیانوی اور طلعت محمود جیسی معروف فلمی شخصیات کے ساتھ قبرستان کی تجدید کاری میں 16 فروری 2010ء کو مزید 3 فٹ مٹی کے بوجھ تلے بے نشان ہونا پڑا۔ بصورت دیگر عامر خان کے والدطاہر حسین کہاں دفن ہوتے کہ ممبئی کے جوہو گارڈن کے سامنے واقع جوہو مسلم قبرستان میں5 برس قبل ایسی ہی دوسری بھرائی ہوئی تھی۔ بلا مبالغہ دیگر شعبوں کی طرح فلمی دنیا انسانوں کی بدولت ہی آباد ہے یہ الگ بات ہے کہ مادیت پرستی اور حرص و ہوس نے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا،سرمایہ دارانہ دجالی نظام زندگی میں لوگ کولھو کے بیل کی طرح جتے ہوئے ہیں،اس سے پہلے کہ دنیا بے کسی کی موت سے عبرت حاصل کرے،کوشش کریں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور سنتوں پر چلا جائے ،سیدھی اور سادہ زندگی گزاری جائے اور دنیا میں رغبت کم کر کے آخرت کے بارے میں سوچا جائے۔۔[2]