مسجد جعرانہ

مکّہ مکرمہ سے چوبیس کلو میٹر دور طائف ہائی وے پر ایک مسجد ” مسجد جعرانہ ” کے نام سے واقع ہے یہ مسجد طائف کی جانب سے آنے والوں کے لیے ” حدود حرم ” کا نقطہ آغاز ہے۔

یہ ایک پانی کا نام ہے جو طائف اور مکہ کے درمیان واقع ہے یہاں سے رسول اللہ نے غزوہ طائف کے بعد عمرہ کے لیے احرام باندھا تھا غزوہ حنین اور اوطاس کے بعد یہاں غنیمت کی تقسیم ہوئی۔ آج جعرانہ وادی سرف میں ایک چھوٹا سا گاؤں بھی واقع ہے[1] پاکستان سمیت دنیا بھر سے آنے والے حجاج اور معتمرین ایک مرتبہ مکّہ کی حدود میں داخل ہو کر عمرہ کرنے کے بعد اگر دوبارہ عمرہ کرنا چاہیں تو ان کے پاس احرام باندھنے اور عمرے کی تازہ نیت کرنے کے دو آسان اختیار ہوتے ہیں - یا تو وہ مسجد الحرام سے مجض بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر موجود مسجد عائشہ یعنی تنعیم کے مقام تک چلے جائیں یا پھر مکّہ - طائف ہائی وے پر چوبیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اس مسجد یعنی مسجد جعرانہ تک چلے جائیں اور وہاں سے احرام باندھ لیں کیوں مکّہ میں مقیم لوگوں پر واجب ہے کہ وہ تازہ احرام کی نیت کے لیے حدود حرم سے باہر نکلیں اور پھر نئے عمرہ کے احرام کی نیت کریں -

عمومًا لوگ مسجد عائشہ سے احرام باندھ لیتے ہیں جہاں حجاج کا پہنچنا نسبتا آسان ہوتا ہے اور شرعا اس میں کوئی عار بھی نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے لوگ جعرانہ والی حدود حرم کی زیارت سے محروم رہتے ہیں -

مسجد جعرانہ کیونکہ ایک جانب حدود حرم کی مستند حدود ہے اور دوسری جانب اس مقام سے ایک مرتبہ پیارے نبی و آقا سیدنا محمّد صلی الله علیہ وسلم نے بھی احرام زیب تن کیا تھا جس کی وجہ سے اس کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے - یہاں ایک جعرانہ نام کا کنواں بھی جس کے لیے مرقوم ہے کہ غالبا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کے پانی سے غسل بھی کیا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جعرانہ سے رات کے وقت عمرے کا احرام باندھ کر نکلے اور رات ہی کو مکہ میں داخل ہوئے اپنا عمرہ پورا کیا پھر اسی وقت مکہ سے واپس چل پڑے اور صبح تک جعرانہ میں پہنچے[2] اسی وجہ سے اس مقام سے مکّہ کے مقیم جب احرام باندھتے ہیں تو اسے بڑا عمرہ اور مسجد عائشہ سے احرام باندھہ کر کرنے والے عمرے کو چھوٹا عمرہ کہتے ہیں - یہ دونوں اصطلاحات صرف سمجھنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں حالانکہ شرعا ان دونوں مقامات سے احرام باندھنے میں کسی کو کسی پر کوئی خاص فضیلت نہیں -

حوالہ جات

  1. معالم مكہ التأريخیہ والاثریہ،مؤلف: عاتق بن غيث البلادی الحربی،ناشر: دار مكہ للنشر والتوزيع
  2. جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 926
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.