شفیع عقیل

وہ 1930 میں لاہور کے ایک گاوں تھینسہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انیس سو پچاس میں وہ کراچی منتقل ہو گئے۔ کراچی آنے کے بعد انھوں نے ابتدا سائن بورڈ لکھنے سے کی لیکن جلد ہی مجید لاہوری کے معروف جریدے نمکدان سے وابستہ ہو گئے۔اسی دوران انھوں نے افسانہ نگاری بھی شروع کی اور 1952 میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعے ’بھوکے‘ شائع ہوا۔

اس مجموعے پر حکومت نے فحاشی کا مقدمہ دائر کیا۔ اس مقدمے میں سعادت حسن منٹو، شورش کاشمیری اور مولانا عبدالمجید سالک گواہانِ صفائی تھے۔ یہ مقدمہ ڈھائی سال چلنے کے بعد ختم ہو ا۔

نمکدان کے بعد وہ بچوں کے رسالے بھائی جان کے مدیر مقرر ہوئے اور پھر روزنامہ جنگ سے وابستہ ہو گئے۔ جہاں انھوں نے ساٹھ برس سے زائد خدمات انجام دیں۔ روزنامہ جنگ میں انھوں نے نونہال لیگ کی ابتدا کی ، جس کے ذریعے جن نامی گرامی ادیبوں نے لکھنے کی ابتدا کی ان میں حسینہ معین، انور شعور، مستنصر حسین تارڑ، عبید اللہ علیم، غازی صلاح الدین اور قمر علی عباسی بھی شامل ہیں۔

وہ روزنامہ جنگ کے میگزین ایڈیٹر، اخبار جہاں کے ایڈیٹر اور ڈائریکٹر اڈیٹوریل بھی رہے۔

وہ پنجابی شاعری میں چار مصروں کی ایک نئی صنف کے بھی موجد تھے۔ ان کی یہ شاعری طویل عرصے تک جنگ میں اردو ترجمے کے ساتھ شائع ہوتی رہی بعد میں اسے دو جلدوں میں شائع کیا گیا۔

انھوں نے پنجابی کی لوک کہانیوں کو جمع کیا بعد میں ان کی یہ کتاب یونیسکو سے انگریزی اور دوسری کئی زبانوں میں بھی شائع کی گئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے دنیا بھی کی لوک کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا۔یہ کہانیاں گیارہ جلدوں میں شائع ہو چکی ہیں۔

پنجابی شاعری پر بھی انھوں نے بہت کام کیااور پنجابی کلاسیکی شاعری پر ان کا کام کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔

شفیع عقیل کو مصوری سے بھی گہری دلچسپی تھی اور انھوں نے اردو میں مصوری پر جتنا لکھا ہے اتنا مصوری پر برصغیر میں کسی ایک آدمی نے کسی بھی زبان میں نہیں لکھا ہو گا۔ ان کا یہ کام کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مصوروں، مجسمہ سازوں اور ادیبوں سے انٹرویو بھی کیے جو کئی جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔

شفیع عقیل نے مجید لاہوری کی شخصیت اور فن پر بھی کتاب لکھی اور مجید لاہوری کے کالم بھی حرف و حکایت کے نام سے مرتب کیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مشہور اہل قلم کی گم نام تحریریں اور نامور ادیبوں کا بچپن کے نام سے بھی کتابیں مرتب کیں۔

انھوں نے مرزا غالب کے کلام اور قائد اعظم کے باتوں کو بھی پنجابی میں منتتقل کیا۔

شفیع عقیل کو سیر و سیاحت سے بھی گہری دلچسپی تھی اور ان کے سفر نامے کئی کتابوں پر مشتمل ہیں۔

حکومت پاکستان نے انہیں تمغا امتیاز پیش کیا۔ انھیں داود ادبی انعام اور خوشحال خان خٹک ایوارڈ بھی دیے گئے۔

6ستمبر 2013ء کو رحلت فرمائی

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.