شائستہ زیدی

'پروفیسر شائستہ زیدی پاکستان کی نامور خاتون مذہبی سکالر ہیں ۔

پروفیسر شائستہ زیدی
پیدائش 28 اگست 1937(1937-08-28)ء
میرٹھ، برطانوی ہندوستان
قلمی نام شائستہ زیدی
پیشہ تدریس
زبان اردو
شہریت پاکستانی
تعلیم ایم اے (علمِ ریاضی)
مادر علمی کراچی یونیورسٹی
اصناف تدریس ، تحقیق ، خطابت
نمایاں کام

کربلا سے پہلے ، کربلا کے بعد

اسلام اور علم

پیامِ کربلا

شام ، شام ، شام ( سفر نامہ )

ابتدای زندگی اور تعلیم و تدریس

شائستہ خاتون المعروف پروفیسر شائستہ زیدی 28 اگست، 1937ء کو میرٹھ کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔۔[1]ان کے والد پروفیسر کرار حسین انگریزی ادب کے پروفیسر تھے تعلیمی سفر کی ابتدا میرٹھ سے ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے والد نے ہجرت کی اور تمام گھرانہ آ کر کراچی میں مقیم ہوا۔ یہاں سٹی گرلز ہائ اسکول، بولٹن مارکیٹ، کراچی سے میٹرک کیا اور اسلامیہ کالج، کراچی میں داخلہ لیا۔ ریاضی اور فلسفے کے مضامین کے ساتھ گریجویشن کی۔ اور پھر کراچی یونیورسٹی سے ریاضی ہی میں ایم اے کیا۔ ایم اے کے بعد کامن ویلتھ سکالر شپ کے تحت انکا نام بھی بیرونِ ملک یونیورسٹی میں مزید اعلی تعلیم کے لیے منتخب ہوا۔ تاہم اس دوران انکی شادی جامعہ کراچی کے پروفیسرناظم حسین زیدی سے طے پائ، لہذا شادی کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اس سے اگلے سال 1961 میں اپنے شوہر پروفیسر زیدی کے ساتھ انگلینڈ جا کر یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے ریاضیات میں ایم اے آنرز کیا۔ وطن واپس آنے کے بعد کراچی یونیورسٹی میں بطور استاد شعبہ ریاضی مقرر ہوئیں۔ اور تقریبا32 برس تک اسی یونیورسٹی سے منسلک رہنے کے بعد اسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوئ ہیں۔[2] تاہم ایک مذہبی سکالر کی حیثیت سے مذہبی تقاریب اور بطور دانشور انجمن ترقی اردو کے زیرِ اہتمام ہونے والی ادبی تقریبات میں وہ آج بھی اسی طرح سرگرمِ عمل ہیں ۔[3] نیز بزمِ آمنہ کے تحت غریب گھرانوں کے بچوں کی مفت تعلیم کے لیے قائم کردہ آمنہ اکیڈمی [4]کی سرپرست ہیں ۔

ذوقِ شاعری اور خطابت

شائستہ زیدی صا حبہ کو اسکول کے زمانے سے ہی تحریر و تقریر میں شغف رہا۔ کالج اور یونیورسٹی میں مقابلہِ تقریر میں ہمیشہ اول رہیں۔ کالج میں مشاعروں میں بھی حصہ لیا اور کالج میگزین میں ان کا کلام شائع ہوا۔ البتہ شاعری کو اپنی پہچان نہ بنایا بلکہ فنِ تقریر نے ہی انہیں اپنے والد کی طرح خطابت کا ذوق دیا اور قرآنِ پاک، تفسیرِ قرآن اور، تاریخ اسلام کے عمیق مطالعے کے باعث ملک کی ممتاز سکالر خواتین میں بھی انکا نام شامل ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے پاکستان ٹیلی ویژن، دیگر پرائیویٹ چینلز [5]اور ریڈیو پاکستان پر محرم اور دیگر اسلامی موضوعات پر ان کے بہت سے لیکچرز اور ٹاک شو پیش کیے جا چکے ہیں ۔[6] نیز ایک مذہبی سکالر کی حیثیت سے انہیں بیرونِ ملک بھی مدعو کیا جاتا ہے۔[7] فنِ خطابت میں وہ اپنے والد پروفیسر کرار حسین کی طرح بلند آہنگ خطابت کی بجائے شائستہ لہجے میں فلسفیانہ لیکن مدلل خطاب کی قائل ہیں ۔

نمونہَ کلام

غزل کے اشعار

اے خداوندگانِ زمین و فلکموت دو یا ہمیں زندگی بخش دو
یا نگاہوں سے اک اک کرن چھین لو دھندلکوں کو یا تابندگی بخش دو
ہر خموشی کو ہر غم کو دے دوزباں آج ہر درد کو نغمگی بخش دو
یا اندھیرے خلاؤں میں دم گھونٹ دو یا ہواؤں کو پھر تازگی بخش دو
سر برہنہ ہے کب سے نگارِ حیاتاس کو پھولوں کی پاکیزگی بخش دو

تصنیفات

ایک سکالر کی حیثیت سے پروفیسر شائستہ زیدی کا رجحان اگرچہ اپنے والد کی طرح تحریر سے زیادہ تقریر پر رہا ہے، تاہم مداحوں کے با رہا اصرار پر انہوں نے اب تک چار کتب سپردِ قلم کی ہیں۔ جن میں انکا ایک سفر نامہ بھی شامل ہے ۔[8]

  1. شام، شام، شام ( سفر نامہ - 2007ء)
  2. پیامِ کربلا (نومبر 2008ء)
  3. کربلا سے پہلے، کربلا کے بعد(2012ء)
  4. اسلام اور علم (مارچ 2015ء)

تنقید و آرا

پروفیسر شائستہ زیدی کے سفر نامہ شام، شام، شام پر پروفیسر انتظار حسین نے جو تنقیدی کالم لکھا ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں ۔[9]

شائستہ نے کمال کیا ہے۔ اس ساری ظالم زمین کو جو اب مظلوموں شہیدوں کے فیض سے مقدس بن چکی ہے کس تفصیل کے ساتھ چھانا ہے اور کس سرشاری کے عالم میں کتنے شوق سے

اور جذبے سے اسے بیان کیا ہے کہ پورا ماضی خواب سے جاگ کر ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ و تابندہ نظر آنے لگتا ہے۔

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.