دلشاد کلانچوی مرحوم

پروفیسر دلشاد کلانچوی

(پیدائش: 24 مئی، 1915ء - وفات: 16 فروری، 1997ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو شاعر اور سرائیکی زبان و ادب کے نامور محقق، نقاد، شاعر، ناول نگار، مترجم، ماہرِ اقبالیات اور شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر تھے خاندان پس منظر و پیدائش ترميم دلشاد کلانچوی کا سلسلہ نسب حضرت علی بن ابی طالب کی غیر فاطمی اولاد سے جا ملتا ہے۔ ان کا قبیلہ 1035ء میں محمود غزنوی کے دور میں ہرات سے گزر کر وادی سون سکیسر کے علاقہ سبھرال میں آباد ہوا۔ دلشاد کلانچوی کے دادا کا نام محمداحمد تھا۔ محمد احمد تقریباً سو سال قبل اپنے بیٹے غلام محمد کے ہمراہ ریاست بہاولپور چلے آئے اور بہاولپور شہر کے مغرب کی جانب تقریباً اٹھارہ میل کے فاصلے پر کلاچ والا میں رہائش پزیر ہو گئے۔ کلانچ والا میں اس زمانے میں قریشی خاندان علم و فضل اور درس و تدریس میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ دلشاد کلانچوی کے دادا محمد احمد نے اپنے اکلوتے بیٹے غلام محمد کو قریشی خاندان کے ایک بزرگ مولوی امام الدین قریشی کی شاگردی میں دے دیا۔ دلشاد کلانچوی کے والد حافظ غلام محمد نہایت نیک سیرت اور شریف الطبع انسان تھے۔ ان کے استاد امام الدین قریشی ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی دختر کا رشتہ ان سے کر دیا اور انہیں گھر داماد بنا لیا۔ یہیں بستی کلانچ والا، ریاست بہاولپورمیں 24 مئی، 1915ء کو دلشاد کلانچوی پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عطا محمد تھا لیکن ادبی دنیا میں دلشاد کلانچوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ابتدائی زندگی اور تعلیم ترميم دلشاد کلانچوی کے گھر کا ماحول دینی و مذہبی تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ سات سال کی عمر میں انہیں بستی سندیں میں واقع پرائمری اسکول میں دخل کر دیا گیا۔ ابھی 6 سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کی والدہ باہمت خاتون تھی جنہوں نے دونوں بیٹوں کو ماں کی محبت کے ساتھ باپ کی شفقت بھی دی۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلشاد کچھ عرصے تک گھر پر ہی رہے۔ والدہ نے ان کے تعلیمی ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے 1929ء میں انہیں اپنے کزن مولوی عبد القادر صدیقی کے پاس بہاولپور بھیج دیا جنہوں نے دلشاد کو صادق ڈین ہائی اسکول بہاولپور میں داخل کرا دیا۔ یہاں انہوں نے پہلے سال انگلش جونئیر کی تعلیم حاصل کی اور وہ 1930ء میں شعبہ ثانوی میں آ گئے۔ بڑے بھائی انہیں اخراجات کے لیے رقم روانہ کیا کرتے تھے لیکن صادق اسکول میں داخل ہونے کے ڈیڑھ سال بعد ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا اور گھر سے رقم آنے کا سلسلہ یکدم منقطع ہو گیا۔ ان حالات سے مجبور ہرکر دلشاد نے نے سرکاری یتیم خانہ میں داخلہ کے لیے درخواست دی اور انہیں شیخ غوث محمد ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز کی سفارش پر کلاس ہفتم کے دوران میں ڈیڑھ سال کے لیے (آٹھویں جماعت پاس کرنے تک) سرکاری یتیم خانہ (دارالطفال) میں داخل کر لیا گیا۔ یتیم خانے کے قواعد کے مطابق ایک طالب علم خاص مدت تک زیرِ تعلیم رہ سکتا تھا اور دسویں جماعت تک وظیفہ پا سکتا تھا۔ دلشاد ذہین بھی تھے اور محنتی بھی، انہوں نے دل لگا کر تعلیم حاصل کی اور 1933ء میں آٹھویں کے امتحان میں ریاست بہاولپور میں اول آئے، جس کے سبب یتیم خانہ کے سپرنٹنڈنٹ نے انہیں خصوصی اجازت نامہ کے ذریعے بی اے تک یتیم خانہ کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دلا دی۔ 1935ء میں انہوں نے میڑک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ میٹرک کے بعد اسی سال وہ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں داخل ہو گئے، جہاں سے 1939ء میں انہوں نے بی اے کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا۔ بی اے پاس کرنے کے بعد 1941ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے (معاشیات) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں 54-1953ء میں ایم اے (اردو) کی ڈگری بطور پرائیویٹ امیدوار حاصل کی۔ ملازمت و ادبی خدمات ترميم دلشاد کلانچوی نے ایم اے (معاشیات) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لاہور سے واپس بہاولپور آئے اور 1942ء میں ان شادی ان کے استاد اور ماموں مولوی عبد القادر صدیقی کی بیٹی سے ہو گئی۔ شادی کے بعد ملازمت کی تلاش شروع کر دی اور آخر کار 27 مئی 1942ء میں ریاست بہاولپور کے محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں وہ تقریباً ایک سال تک کام کرتے رہے۔ یکم جون 1943ء میں ایس ای کالج بہاولپور میں ایک لیکچرار کی نئی آسامی پیدا کی گئی اور انہیں بطور لیکچرار مقرر کر دیا گیا۔ ریاست بہاولپور کے پاکستان میں ضمن ہونے کے بعد 14 اکتوبر 1955ء میں انہیں ترقی دے کر پروفیسر بنا دیا گیا۔ 30 ستمبر 1963ء میں گورنمنٹ انٹر کالج مظفرگڑھ کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں 19 اکتوبر 1965ء گورنمنٹ ڈگری کالج بہاولنگر کے پرنسپل کا چارج سنبھالا۔ 19 مارچ 1970ء کو وہ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور کے پرنسپل بنا دیے گئے جہاں سے 3 مارچ 1971ء کو ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 6 جنوری 1972ء کو امیر آف بہاولپور نواب عباس خان عباسی نے انہیں صادق عباسی (پرئیویٹ) کالج ڈیرہ نواب کا پرنسپل مقرر کر دیا جہاں وہ 4 مارچ 1974ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ 1989ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی شعبہ کا آغاز ہوا تو دلشاد کلانچوی اکتوبر 1989ء سے جز وقتی پروفیسر کی حیثیت سے منسلک ہو گئے اور تادمِ مرگ وہاں پڑھاتے رہے۔ ادبی خدمات ترميم دلشاد کلانچوی کی ادبی زندگی کا آغاز زمانہ طالب علمی میں ہی ہو گیا تھا۔ وہ ابھی چھٹی یا ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھے کہ بچوں کے رسالوں کے لیے لکھنے لگ گئے۔ میٹرک پاس کرنے تک ان کی متعدد کاوشیں چھپ چکی تھیں۔ ایس ای کالج بہاولپور میں داخل ہوئے تو کالج میگزین کے لیے لکھتے رہے۔ اسی زمانے میں انہوں نے نظمیں بھی لکھیں۔ ان کی ایک نظم معریٰ انتظار اسی زمانہ طالب علمی کی یادگار ہے۔ دلشاد کلانچوی بنیادی طور پر معلم تھے۔ انہوں نے ساری زندگی درس و تدریس میں گزار دی، اسی زمانے میں انہوں نے طلبہ کی درسی ضروریات کے لیے چھ کتب لکھیں جن میں اصلاحات معاشیات، رہبر معاشیات پاک و ہند، نظریات معاشیات وغیرہ نمایاں ہیں۔ ان کا پہلا سرائیکی افسانہ روہی دا خواب ماہنامہ سرائیکی بہاولپور میں شائع ہوا۔ انہوں نے چھوٹی بڑی 69 کتابیں تصنیف و تالیف کیں، جن میں 10 اردو زبان میں، 3 انگریزی میں اور 56 سرائیکی زبان میں ہیں۔ انہیں سرائیکی زبان سے بہت زیادہ محبت تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے خود کو سرائیکی زبان کے لیے وقف کر دیا۔ 23 مارچ 1971ء کو انہوں نے سرائیکی لائبریری بہاولپور قائم کی جہاں سے سرائیکی زبان و ادب پر کام کرنے والے محققین نے بہت فیض پایا۔ انہوں نے سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کے لیے جنوری 1986ء میں چار صفحات پر مشتمل ایک ماہانہ خبرنامہ سرائیکی زبان جاری کیا جو 1989ء تک جاری رہا۔ ان کی سرائیکی زبان سے محبت کے بارے میں ان کی بیٹی نامور افسانہ نگار و ڈراما نویس مسرت کلانچوی کہتی ہیں: ” سرائیکی اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے، اُن کی زندگی کا مقصد ہے، اُن کی عزیز ترین شے ہے۔ انہوں نے خود کو اس کے لیے وقف کر دیا۔ وہ ایک دن اداس بیٹھے تھے کہ چچا نظام الدین آئے، پوچھا بھائی صاحب آپ نے سب بچوں کو پڑھا لکھا کر برسرِ روزگار کر دیا۔ ان کی شادیاں کر دیں، سب بچے خوش اور آباد ہیں، پھر بھی آپ پریشان ہیں۔ آخر کیوں؟ انہوں نے جواب دیا مجھے سرائیکی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ میں اپنے بچوں کے فرض سے تو سبکدوش ہو گیا ہوں لیکن سرائیکی کا فرض ابھی ادا کرنا ہے.

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.