عبدالرشید
لال مسجد کے بانی مولوی عبد اللہ کے بیٹے اور موجود خطیب عبدالعزیز کے بھائی۔ دادا کی مناسبت سے نام عبد الرشید غازی رکھا گیا۔ ابتدا میں اپنے بڑے بھائی عبد العزیز سے کافی مختلف رہے۔
عبدالرشید | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 29 جنوری 1964 اسلام آباد |
وفات | 10 جولائی 2007 (43 سال)[1] لال مسجد |
وجۂ وفات | لڑائی میں مقتول |
شہریت | ![]() |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ قائداعظم |
پیشہ | امام |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | آپریشن سائیلنس |
دستخط | |
![]() | |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |

تعلیم
مولانا عبد الرشید نے کسی قسم کی دینی تعلیم حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ والد کے دباؤ پر فیصل مسجد سے ملحق مدرسے میں داخلہ تو لے لیا لیکن تعلیم ادھوری چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی۔ حافظ عبد الرشید غازی نے داڑھی نہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور مسجد و مدرسے کو خیر باد کہہ کر 1987-1988ء میں قائد اعظم یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
اعتدال پسندی
وہ پینٹ شرٹ پہنتے اور مخلوط محفلوں میں شرکت کرتے۔ اس دوران رواج کے برعکس حافظ کا لفظ اپنے نام کے ساتھ لگانے سے احتراز کرتے رہے۔ والد ان کی غیر شرعی طرز زندگی سے اتنے نالاں ہوئے کہ وصیت نامے میں اپنے مدارس اور مساجد پر مبنی جائداد کا بلا شرکت غیر مالک اپنے بڑے بیٹے کو بنا ڈالا۔
ملازمت
امتیازی نمبروں سے ایم ایس سی تاریخ کی ڈگری لینے کے بعد انہوں نے سرکاری ملازمت کی ٹھانی اور انّیس سو نواسی میں وزارت تعلیم میں سترہ گریڈ کے افسر لگ گئے۔ یہاں سے ڈیپوٹیشن پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اسلام آباد دفتر میں چلے گئے جہاں کئی سال خدمات انجام دیں۔
شادی
ان کی شادی بھی مری کے ایک متمول اور نسبتاً آزاد خیال گھرانے میں ہوئی۔ ان کی زوجہ سسرالی روایات کے خلاف گاڑی بھی ڈرائیو کرتی رہیں۔
سوچ میں تبدیلی
والد کے قتل نے عبد الرشید غازی کو بدل کر رکھ دیا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے مسجد اور مدرسے کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی اور چہرے پر داڑھی نمودار ہونا شروع ہو گئی۔ سرکاری ملازمت بہرحال چلتی رہی۔ بڑے بھائی نے ان کی بدلتی سوچ کی حوصلہ افزائی کی اور مدرسے اور مسجد میں اپنا نائب اور جانشین مقرر کر دیا۔
سیاسی شہرت
عبد الرشید غازی پہلی بار منظر عام پر سال دو ہزار ایک میں اس وقت آئے جب ملک کی مذہبی جماعتوں نے امریکی حملے کے خلاف افغانستان کے دفاع کے لیے ایک تنظیم کا اعلان کیا۔ عبد الرشید غازی، جو اب اچانک، مطلوبہ مذہبی تعلیم اور ڈگری نہ ہونے کے باوجود مولانا ہوچکے تھے، مولویوں کے اس اتحاد کے مرکزی رہنما قرار پائے۔ اسلام آباد میں ہر روز ایک جلسہ ہوتا اور مولانا عبد الرشید غازی دیگر مذہبی رہنماؤں کے ساتھ کھڑے جذباتی انداز میں خطاب کرتے۔
وزیرستان آپریشن
حکومت کے ساتھ ان کے معاملات میں اصل خرابی اس وقت آئی جب سال دو ہزار چار میں قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن ہوا اور دیگر مذہبی عناصر کی طرح عبد الرشید غازی نے بھی ڈٹ کر اس کی مخالفت کی اور اس کے لیے لال مسجد کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔
اس آپریشن میں جب دونوں طرف سے بھاری جانی نقصان کی اطلاعات آنا شروع ہوئیں تو لال مسجد سے ایک فتوی جاری ہوا کہ اس لڑائی میں مارے جانے والے فوجیوں کو ’ہلاک‘ جبکہ مقامی قبائلیوں اور طالبان کو ’شہید‘ کہا جائے۔ یہ تو گویا صدر جنرل مشرف اور ان کی افواج کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہوا کیونکہ فوجی جوانوں کا جانی نقصان سرکاری اندازوں سے بڑھتا جا رہا تھا۔
حکومت کی ناراضی
اچانک حکومت نے ایک روز اعلان کیا کہ عبد الرشید غازی اسلام آباد اور راولپنڈی میں یوم آزادی کے موقع پر متعدد اہم سرکاری عمارات پر بم دھماکوں کے منصوبے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس فہرست میں ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس اور جی ایچ کیو کی شمولیت نے معاملے کو سنگین بنا دیا۔ غازی صاحب زیر زمین چلے گئے اور حکومت نے ان کی ’بارود سے بھری گاڑی‘ میڈیا والوں کے سامنے پیش کر دی۔
اس کے بعد درون پردہ کیا ہوا، معلوم نہیں لیکن ایک روز مذہبی امور کے وزیر اعجاز الحق نے اعلان کیا کہ موصوف اس سازش میں ملوث نہیں ہیں اور دیگر ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
ان ملزمان میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے چند افراد کے علاوہ ایک دو ازبک جنگجوؤں کے نام بھی لیے جاتے رہے۔ جن کے بارے میں یہ تصدیق ہو چکی تھی کہ ان تمام افراد کا لال مسجد آنا جانا تھا۔ حکومت نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو پتہ چلا کہ عبد الرشید غازی کے وزیرستان میں بسنے والے جنگجوؤں سے قریبی روابط رہے ہیں۔
جامعہ حفصہ
دوسری مرتبہ مولانا صاحب اُس وقت بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے جب اسلام میں گرائے جانے والی مساجد کے خلاف انہی کے زیر انتظام چلنے والے خواتین کے مدرسے جامعہ حفصہ کی طالبات نے چلڈرن لائبریری کا محاصرہ کیا۔ اس کے بعد حکومت سے مذکرات شروع ہوئے جو کبھی کامیابی کی طرف بڑھتے اور کبھی ناکامی کی طرف۔ اس کے بعد مولانا عبدالعزیز نے ملک میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا اور اسلام آباد میں موجود ویڈیو سی ڈی کی دکانوں کو دھمکیاں دی گئیں ۔آنٹی شمیم کے کیس کے بعد لال مسجد پر حکومتی حلقوں کی جانب سے کافی تنقید ہوئی۔ لیکن دونوں مولانا صاحبان اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے چینی مساج سنٹر کے چینی ملازمین کو بھی اغوا کرکے انھیں مساج سنٹر بند کرنے کا کہا۔ مذکرات کے بعد انہوں نے ان چینی باشندوں کو چھوڑ دیا۔ جولائی 2007 میں حالات اُس وقت کافی سنگین رخ اختیار کر گئے۔ جب لال مسجد کی انتظامیہ اور طالب علموں اور رینجرز کے درمیان تصادم ہوا۔ اس کے بعد حکومت نے پورے مدرسے اور لال مسجد کا گھیراو کرکے وہاں آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
انتقال
بہت سے طلبہ اور طالبات نے اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیا۔ خود مولانا عبد العزیز برقع پہنے فرار کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ لیکن عبد الرشید غازی خود چند طالب علموں کے ساتھ مدرسے کے اندر رہے۔ حکومت نے کئی مرتبہ ہتھیار ڈالنے کا کہا لیکن مولانا عبد الرشید غازی نے ایک محفوظ راستے کا مطالبہ کیا جس میں ان کو گرفتار نہ کرنے کی شرط رکھی گئی۔ حکومت کے ساتھ اس حوالے سے مذاکرات بھی ہوئے لیکن ناکامی سے دوچار ہوئے۔ اور آخر کار حکومتی آپریشن میں عبد الرشید غازی جاں بحق ہوئے۔ انہوں نے وصیت کی کہ ان کو اِن کے والد کے پہلو میں جامعہ فریدیہ اسلام آباد میں دفن کیا جائے لیکن حکومت نے ان کی لاش کو ان کے آبائی گاؤں روجھان مری میں امانتاً دفن کروایا۔ جس دن ان کا انتقال ہوا[2]
مزید دیکھیے
حوالہ جات
بیرونی روابط
- بی بی سی، 10 جولائی 2007ء، Obituary: Abdul Rashid Ghazi
- روزنامہ نیشن، 11 جولائی 2007ء، "Abdul Rashid Ghazi"